Posts

Showing posts from November, 2019

26/11 کئ حقیقت

Image
مسلمان دہشت گرد نہیں دہشت گردی کے شکار ہیں!!! احساس نایاب(شیموگہ، کرناٹک) ایڈیٹر گوشہ خواتین واطفال بصیرت آن لائن آج ساری دنیا میں مسلمانوں کو دہشتگرد کہہ کر ہراساں کیا جارہا ہے، کسی بھی ملک میں کوئی بھی حادثہ رونما ہوجائے تو اُسے سب سے پہلے اسلام سے جوڑ کر بےگناہ مسلمانوں کو تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے بھلے اُس حادثہ کا ذمہ دار کوئی اور کیوں نہ ہو، لیکن ساری انگلیاں ایک مخصوص طبقے کی طرف اٹھ جاتی ہیں، ٹی وی اینکرس گلے پھاڑ پھاڑ کر مسلمانوں پہ دہشت گرد ہونے کی مہر لگادیتے ہیں پھر جس خوفناک کھیل کا آغاز ہوتا ہے اُس سے تو خدا کی پناہ کہ کیسے بےگناہ مسلم نوجوانوں کو محض شک کی بنا پر سالوں سال جیلوں میں اذیت دی جاتی ہے، اُن کے ساتھ ان کے اہل خانہ تک کا جینا محال کردیا جاتا ہے، شک اور اسلام نفرت کی بنیاد پر ان کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے خاندان کی کئی زندگیاں بھی تباہ و برباد کردی جاتی ہیں جبکہ حقیقت ہوتی کچھ اور دکھایا جاتا کچھ اور ہے، چاہے وہ امریکہ میں ہوا 911 ہو یا ہندوستان میں ہونے والے بم دھماکے ہوں، لیکن الحمدللہ سچائی زیادہ دنوں تک چھپی نہیں رہتی ہے بلکہ حقیقت کا آئینہ ایک نہ ایک دن اپنا

مفلسی پہ تماشائے الم !!!

Image
مفلسی پہ تماشائے الم !!! احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک ) امیر ہو یا غریب,  چرند ہو یا پرند ..... زمین, آب و ہوا میں جینے والی اللہ کی ہر مخلوق کو سر چھپانے کے لئے ایک عدد مکان کی ضرورت ہوتی ہے , چاہے عالیشان عمارت ہو یا دو ہاتھ جتنی جھونپڑی ...... جو چلچلاتی دھوپ میں , خون جمادینے والی ٹھنڈ اور برسات کے ستم سے خود کے ساتھ اپنوں کو محفوظ رکھے ...... اور اسی مکان کو ہر جاندار زندگی بھر  تنکا تنکا جوڑ کر بڑے ہی لگن کے ساتھ  ارمانوں کا آشیانہ بناتا ہے تاکہ وہ زمانے کے تھپیڑوں کے بیچ کچھ پل راحت و اطمینان کی سانس لے سکے ...... خوشیوں,  غموں,  پریشانیوں و فاقوں بھری زندگی میں بھی اپنی چار دیواری کے اندر ہمیشہ اپنا وقار,  بھرم قائم رکھ سکے ....... انسان بھلے کئی کئی دن فاقوں میں گذار دے لیکن سر پہ سایہ فگن چھت کے ہونے سے وہ اپنی زندگی میں اطمینان محسوس کرتے ہوئے" گنجی امبل "پی کر بھی عزت کی زندگی جیتا ہے ........ اور ظالم دنیا سے بچاکر اپنے بچوں کی  بہتر پرورش کرتے ہوئے اُن کا مستقبل سنوار سکتا ہے  اس لئے کسی بھی انسان کی زندگی میں گھر بہت معنی رکھتا ہے کیونکہ ایک مکان کو گھر بناتے ہ

رام کے ہیں نہ عوام کے, بھاجپائی تو ہیں پجاری اقتدار کے !!!

رام کے ہیں نہ عوام کے، بھاجپائی تو ہیں پجاری بس اقتدار کے !!! احساس نایاب (شیموگہ، کرناٹک) ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن ممکن ہے بابری مسجد و رام مندر کا فیصلہ بہت جلد سُنادیا جائے گا..... کیونکہ بابری مسجد - رام مندر تنازع کی سماعت سپریم کورٹ میں تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور مسلسل کئی سالوں کے انتظار کے بعد یہ انکشاف کیا جارہا ہے کہ 17 نومبر 2019 سے پہلے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی پانچ ججوں کی بینچ سے تاریخی فیصلہ سُنا سکتے ہیں، کیونکہ 17 نومبر کو چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی ریٹائر ہونے والے ہیں جس کو لے کر قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ وہ اپنے جانے سے قبل اس فیصلے کے ساتھ خود کو تاریخ کا حصہ بنانا چاہینگے ....  ابھی دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ کس بنیاد پہ ہوگا؟ شواہد، ثبوتوں، دلائل و دستاویزات کی بنا پہ یا محض کھوکھلی آستھا کی آڑ اور اقتدار کے دباؤ میں ..... ویسے دوران سماعت کئی ایسے پہلو سامنے آئے ہیں جس سے مسلمانوں میں امید کی ہلکی سی کرن نمودار ہوئی ہے کیونکہ اتنے سالوں میں شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ چیف جسٹس گگوئی کے کہنے پر بھری عدالت میں ہندو فریق کی جانب سے پیش کئے گئے بےبن

یہ تو وقت ہے, آج تیرا تو کل ہمارا ہے

یہ تو وقت ہے، آج تیرا تو کل میرا ہے !!! احساس نایاب (شیموگہ، کرناٹک) ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن طویل عرصہ بابری مسجد ملکیت  کی لڑائی لڑنے کے بعد عدالت عظمی کی جانب سے جو فیصلہ سنایا گیا وہ فیصلے کے نام پہ سمجھوتا نکلا ... مسلسل چالیس دنوں کی ڈرامہ بازی کے بعد پانچ ججوں کی بینچ کے ذریعہ اس فیصلہ کم سمجھوتے کو عوام کے آگے اس طرح سے پیش کیا گیا جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ........ راتوں رات ڈاکہ ڈالنے والے ڈاکوؤں کے حصہ میں ساری 70 ایکر زمین اور اصل حقداروں کے حصہ میں 5 ایکر زمین کی خیرات دے کر بہت بڑا احسان جتایا گیا ........ جبکہ بروز ہفتہ صبح 10:30 بجے سے تقریبا بارہ بجے تک اس فیصلے پہ ساری دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں، ہر دل کی دھڑکن تیز، ہر آنکھ فیصلے کی منتظر .... مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتی طبقات و انصاف پسند شخصیات سبھی کا ماننا تھا کہ اب کی بار جو فیصلہ سنایا جائے گا وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے جس طرح کی باتیں کی جارہی تھی کہ فیصلے ثبوتوں، دلائل و  شواہد کی بنا پر سُنایا جائے گا نہ کہ آستھا کے ن