کھلا خط عمائدین ملت کے نام

دختر قوم کا پیغام، قائدین ملت کے نام !!! 

احساس نایاب(شیموگہ، کرناٹک)
ایڈیٹر گوشہ خواتین واطفال بصیرت آن لائن

ملی و سیاسی قائدین ملت 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے آپ تمام حضرات بخیر ہوں گے! 
آج جس مقصد سے اس تحریر کو قلم بند کررہی ہوں بیشک وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے... باوجود دنیا پرستی میں ڈوبے آپ حضرات کو اداس، خوفناک و سسکتی ہوئی ایک اور دنیا سے تعارف کرانے کی یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے ..... 

یوں تو آپ سبھی جانتے ہیں کہ کیسے اور کس کس طرح عرصہ دراز  سے چند مسلم بھائی ملک کے حالات سے آپ کو روشناس کراتے ہوئے آپ کو آواز دیتے رہے، آپ کے آگے منتیں، سماجتیں اور فریادیں کرتے رہے تاکہ آپ کو خواب غفلت سے بیدار کرسکیں، آپ کو آپ کی ملی و سیاسی ذمہ داریاں، آپ کے فرائض اور قوم وملت سے کے کئے گئے عہد و پیماں یاد دلاسکیں .....
لیکن افسوس آپ شہرت کے نشے میں اس قدر چور رہے  کہ نہ آپ کو ملک کے حالات سے کوئی غرض رہا نہ ہی مسلمانوں کے حال پہ ترس آیا ..... بس ہربار قوم کے نام پہ قوم سے چندہ وصولنے تک آپ نے خود کو محدود کرلیا اور ڈینگو مچھر کی طرح بھولے بھالے مسلمانوں کا خون چوستے ہوئے قیادت کے دعوے کرتے رہے تو کبھی خود کو نبیوں کے وارث کا درجہ دے کر بیچارے عام مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے رہے  .......
 
یہاں تک کہ اپنے وجود اپنی پہچان اپنی شخصیت کو تابناک رکھنے کی خاطر مسلمانوں میں تفریق پیدا کردی، مسلکوں کے نام پہ اُنہیں ایک دوسرے کی مخالفت میں کھڑا کردیا، قطرہ قطرہ شخصیت پرستی کا زہر اُن کے رگوں میں گھولتے رہے، اُس وقت تک کہ مسلم نوجوان بزدل، اور ذہنی طور پر مفلوج ہوگئے، اور اُن کی اس حالت زار کو برقرار رکھنے کی خاطر 
 انہیں سے اکٹھا کیا گیا پیسہ مٹھی بھر غریب مفلسوں کو کمبل، روٹی کی شکل میں دے کر خوب واہ واہی بٹورتے رہے، نام اتحاد پہ جلسے، جلوس، رٹی رٹائی تقاریر، عید ملن، نام نہاد قومی یکجہتی کے نام پر فضول کانفرنسیں، اور افطار پارٹیوں کو اپنا شیوہ بنالیا، تاکہ عوام کے آگے ہمیشہ اپنی دھاک جمائے رکھ سکیں، مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں...... 
اس درمیان کبھی بھی آپ نے اُمت مسلمہ کے اصل حالات اُن کے مسائل پہ غوروفکر کرنے کی زحمت تک نہیں کی....... 

حکمت اور مصلحت دین کے نام پہ اب تک جو کچھ بھی آپ نے کیا ہے اُس میں کہیں نہ کہیں صلاح الدین ایوبی کے دور واقعات تازہ کردیتی ہیں کہ کیسے صلاح الدین ایوبی کے دور میں صلیبیوں نے نت نئے حربہ استعمال کر کے مسلمانوں کو آپس میں لڑوایا 
یہ واقعہ 1171 کا ہے جس کو عنایت اللہ التمش  نے اپنی کتاب "داستان ایمان فرشوں کی" میں لکھا ہے. 
التمش لکھتے ہیں "سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں جب صلیبیوں کو ہر طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، اُن کی تمام تر سازشین ناکام ہوتی نظر آئیں، زمین، زن، زر ہر وار خالی جارہا تھا اور صلاح الدین ایوبی کو غیرمعمولی فتح حاصل ہورہی تھی تو اُس وقت صلیبیوں نے ایک نیا حربہ آزمایا جس میں قاہرہ کے مساجد و مدارس میں اپنے تیار شدہ سفید خطیب شامل کردیئے جو درس اور وعظ کے ذریعے مسلمانوں کے اندر دنیا پرستی، اسلام کی غلط تصویر پیش کرسکیں اور نوجوانوں میں بزدلی، جہاد سے دوری یہاں تک کہ جنسی رجحان کو بڑھاوا دے سکیں....... 

 آج کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ دوبارہ دہرائی جارہی ہے .
اس کی وجہ ہمارے نام نہاد قائدین کی خاموشی، ہر بات پہ صبر کی تلقین، اپنے جائز حقوق سے دست بردار ہونے پہ امن و امان کی اپیل، یقین جانیں سب کچھ وہی ہے، بس چہرے اور کردار بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں، 
اُس دور میں بھی جب صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں کو جنگی تیاریاں کرواتے تو سفید خطیب اُن سپاہیوں کو جنگ و جہاد سے دور رہنے کا درس دیتے، یہاں تک کہ لڑکیوں پہ جنگی مہارت حاصل کرنے کو ناجائز قرار دیتے تاکہ عوام کے اندر جذبہ جہاد ہی ختم ہوجائے 
آج بھی یہی ہورہا ہے، ورنہ ہم مسلمانوں کے حالات اتنے بدترین نہ ہوتے نہ ہی ذلت بھری زندگی ہمارا مقدر بنتی. 
یاد رہے حکمت و مصلحت کے نام پہ جب بزدلی کی چادر اوڑھ لی جائے، اتحاد کے نام پہ صرف اسٹیج سجانے، اوروں کے آگے گردنیں جھکانے کو اپنا شیوہ بنالیں وہاں بےعزتی اور ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا.....

یہی وجہ ہے آج ہم سے ہمارا سب کچھ چھینا جارہا ہے، ہماری شریعت، ہماری مساجد، ہمارے حقوق، ہماری پہچان اور ہمارے جینے کا حق.
ہوسکتا ہے ہمارا تجزیہ غلط ہو، اللہ کرے یہ غلط ہی ثابت ہوں مگر حالات اُسی تاریخ کی جانب اشارہ کررہے ہیں جو اپنی آنکھوں پہ لگا شخصیت پرستی کا چشمہ نکال کر دیکھینگے تو صاف صاف نظر آئے گا .....

 مثلاً این آر سی اور کشمیر 370 کو ہی لے لیں کیسے 370 پہ تمام قائد کی زبان گنگ تھی، معصوم کشمیریوں سے پلہ جھاڑ لیا گیا تھا، طلاق بل پاس ہونے پہ صبر کرلیا، بابری مسجد چھین جانے تک بھی امن و امان کی دہائیاں دیتے رہے، پھر سرگوشی میں شہریت بل کی حمایت کردی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے این آر سی بل لوک سبھا سے راجیہ سبھا تک پہنچ گئی. اُس وقت بھی آپ تمام محترم حضرات اطمینان سے اپنے عالی شان مکانوں میں چندے و ہدیوں سے ملی آرائش میں مست مگن رہے، جبکہ آپ کی دکانیں ہمارے چندوں سے چلتی ہیں، آپ کے دربار ہمارے ہدیوں سے سجتے ہیں، اسٹیج سے لے کر مائک، شال سب کچھ قوم ہی کی دین ہیں، نام نمود، رتبہ، عہدہ بھی ہمارے ہی بدولت ہے، یہاں تک کہ قوم سے آپ کا وجود ہے جس قوم کو آج آپ مٹانے چلے ہیں، ہمارے بچوں کا مستقبل کا سودا کرنے چلے ہیں، 30 کروڑ معصوم مسلمانوں کو آج آپ حضرات نے ایسے دوراہے پہ لاکے کھڑا کردیا ہے، جہاں سے مسلمانوں کو راستہ نظر نہیں آرہا ہے، 
اب تو ایسا لگتا ہے آستین میں پالے ہوئے سانپ ہی ہمیں ڈس لینگے، یقین جانیں ہمیں دشمن کی پرواہ نہیں ہے ہمارے تو آستین میں پلنے والوں سے خطرہ ہے. کیونکہ جو قوم سے اتنا سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود آر ایس ایس بی جے پی سے وفاداری نبھائے آخر اس کو قوم کیا سمجھے اور کس زاویہ نگاہ سے دیکھے ؟

آج قوم بھلے آپ کو معاف کردے لیکن تاریخ آپ سبھی کو کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ آج مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ آپ سبھی کی لاپرواہی، ناکامیوں کا ثمرہ ہے جو گیہوں کے ساتھ گھن کی طرح ہندوستان کی 75 فیصد غیر مسلم آبادی بھی اس خوفناک حالات سے جوجھ رہی ہے، ہماری خاطر پولس، انتظامیہ سے لڑ رہی ہے، لاٹھیاں، گولیاں کھا رہی ہے اور مبارک ہو آپ کو آپ کی وجہ سے 200 سے زائد مسلم نوجوان شہید بھی ہوچکے ہیں، اُن کے جنازے بھی اٹھ چکے ہیں، آگے ناجانے اور کس کس کے اٹھنے باقی ہیں، کیا کیا دن دیکھنے باقی ہیں.......

خیر ابھی شکوے گلے کیسے، شکایتں کیسی جب چڑیا چگ گئی کھیت ....
جو جو آپ کو کرنا تھا آپ نے کردیا، ایک طرف آپ امن کی اپیل کرکے قوم کو دباتے رہے دوسری طرف بھاجپائی ناک کے نیچے سے بابری مسجد کو اپنے نام کرلیا، آپ حضرات مسلک  مسلک، فرقہ فرقہ کھیلتے ہوئے اُمت کو اپنی انگلیوں پہ نچواتے رہے، دشمنان اسلام نے ملک میں ہندوتوا کا جھنڈا گاڑتے ہوئے ہم سے ہمارے حقوق چھین لئے، ہماری شریعت میں جبرا گھس کر، طلاق بل پاس کروالیا، پردہ نشین خواتین کو سڑکوں پہ لاکھڑاکیا اور جب آپ جنیوا میں مسلمانوں کی قیادت کا ڈھول بجاتے رہے، یہاں ان شیطانوں نے کشمیر کو زندہ تابوت بنادیا، آپ امت شاہ، بھاگوت، شری شری شنکر سے گلے مل کر محبت بھرے قیمتی  تحفے تحائف لیتے رہے یہاں مسلمانوں و اقلیتوں کے خلاف این آر سی ،سی اے اے جیسا ظالمانہ قانون نافذ کردیا گیااور تو اور دھڑلے سے مسلمانوں کے لئے کرناٹک میں ڈیٹنشن کیمپ کی صورت میں زندہ قبرستان بھی بنادیا گیا ہے ........

سنا ہے جن کے نام این آر سی میں نہیں آئینگے انہیں اٹھاکر ڈیٹنشن کیمپ میں پھینک دیا جائے گا جو کوئی معمولی جیل نہیں بلکہ جہنم سے بدتر جگہ ہے جس سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے، جہاں کی چار دیواری میں زندہ لاشیں رینگتی، سسکتی زندگی سے نجات چاہتی ہیں اور موت ان بدنصیبوں کے قریب جانے سے بھی خوف کھاتی ہے. خبروں کے مطابق عنقریب ایسے ہی ایک قبرستان یعنی ڈیٹنشن کیمپ کا افتتاح ہونے جارہا ہے اور کئی کیمپ تعمیر کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے. 

ایسے میں مسلمانوں کا یہ سوال لازم ہے ....

کیا آپ حضرات کو اس کی خبر نہیں تھی ؟
کیا آپ ڈیٹنشن کیمپ سے اتنے بےخبر اور انجان تھے ؟
جو اتنے دنوں سے بھولے بھالے مسلمانوں کو زہر بھری میٹھی گولیاں کھلاتے رہےاور امت شاہ بھاگوت سے ملاقات کر ملک بھر میں این آر سی نافذ کرنے کی مانگ کردی. 

آخر یہ سب کچھ کرکے آپ نے کیا حاصل کرلیا ؟
ایل ٹی سی گھوٹالہ میں راحت یا اس کے پیچھے اور بھی کوئی رازداری ہے ؟
جو چپکے چپکے سے سارے خرافات انجام دے کر اپنے اپنے بلوں میں گھسے دبکے بیٹھے ہیں، جہاں سے وقتا فوقتاً اپنا زہریلا پھن نکال کر مسلمانوں کے خلاف پھنکارنے لگتے ہیں. 

خیر نوجوانون کی چیخ و پکار آپ کو نہیں جگا سکی تو مجبورا کئی قلمکاروں کو اپنے قلم کو حرکت میں لاتے ہوئے آپ کے نام پیغامات ارسال کرنے پڑے تاکہ زبان کی آواز نہ سہی قلم کی پکار آپ تک پہنچ جائے.....  لیکن افسوس ملکوں میں انقلاب برپا کردینے والے قلم بھی آپ کے اندر تبدیلی نہیں لاسکے اور آج آپ نے اپنے منصوبے میں ایک حد تک کامیابی حاصل  کرلی ہے .

مسلکوں و فرقوں کے نام پہ مسلمانون کو الجھا کر، آپس میں لڑوا کر، گروہ بندی میں تقسیم کرکے آپ نے قوم کو اندرونی طور پہ کھوکھلا کردیا ہے، مسلمانوں کے دل و دماغ کو دیمک کی طرح چاٹ کھایا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی کئی ایسے دلال منافق ہمارے درمیان سر اٹھائے گھوم رہے ہیں جنہوں نے قوم کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے، دراصل یہ آپ ہی کی پیداوار ہیں اور ابھی بھی یہ دلال آر ایس ایس کے ہاتھوں قوم کو نیلام کرنے کی کوشش کررہے ہیں.
اپنے ناموں کے آگے حافظ، قاری، مفتی ،علامہ، مفکر ملت اور قائدملت جیسے بڑے بڑے القاب چسپاں کر یہ لالچی موقعہ کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، حرام کی دولت سے اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں، فانی زندگی کی خاطر مسلمانوں کو فنا کرنا چاہتے ہیں. 
تو دوسری طرف کئی غنڈے موالی قوم کی قیادت کے دعویدار بن چکے ہیں، جنہیں الف سے اللہ ب سے بسم اللہ نہیں پتہ ویسے بھاجپائ مخبر، کم ظرف، دلال بھی داڑھی، ٹوپی، جبہ پہنے قوم کے رہبر، رہنما بن چکے ہیں اور بھولے بھالے مظلوم مسلمانوں کو ڈٹنشن کیمپ میں پھینکوانے کی خاطر کمر بستہ ہوچکے ہیں. 

لیکن ان شاءاللہ عنقریب یہ تمام نام نہاد قائد اپنے گھناؤنے مقاصد میں ناکام ہونگے...... 

کیونکہ الحمدللہ آج ایک تعلیم یافتہ، دانشور نوجوانوں کا بڑا طبقہ جاگ اٹھا ہے، ملک کو آپ جیسے پاکھنڈیوں اور مودی، یوگی، امیت شاہ جیسے ہٹلروں سے بچانے کی خاطر سر پہ کفن باندھ چکا ہے.
جن کی تعلیم و تربیت کو لے کر کل تک آپ انہیں خواتین سے مشابہ کیا کرتے تھے آج وہی حقیقی معنوں میں مرد مجاہد کا کردار ادا کررہے ہیں. 
بنا کسی مفاد، بنا کسی نام و نمود، شہرت و ریاکاری، پہچان اور بنا کسی مذہبی تعصبی تفریق کے سرکار کی غلط پالسیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں. 
ظالم حکمران اور اس کے سنگھی نامرد پیادوں کے خلاف جو جنگ آپ کو لڑنی تھی آج وہ نوجوان طلبہ لڑرہے ہیں، سر پہ کفن باندھ کر، مرد و عورت کا جنسی فرق بھلاکر صنف نازک بھی مجاہدہ کا کردار ادا کررہی ہیں...... 
اور یہ آپ حضرات کے لئے شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات ہے  .......

بہرحال آپ حضرات کی بےحسی پہ دل تو کرتا ہے آپ پہ لاکھ لاکھ لعنت بھیجیں، آپ پہ ماتم کریں، آپ پہ فاتحہ پڑھیں، گلی محلوں میں آپ کے نام کی شیرینی بانٹیں .  
آخر آپ نے اس قوم کو لاوارث کرکے درندوں کے حوالے جو کردیا ہے کہ ہندوستان بھر میں صنف نازک پہ مردانہ پولس لاٹھیاں برسا رہی ہے، اُن کے سروں سے حجاب کھینچے جارہے ہیں، اُن کی بےحرمتی کی جارہی ہے لیکن یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی آپ لوگوں کی غیرت مرچکی ہے، آپ کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے، تبھی آپ نے ان حالات میں بھی کئی اہل علم حضرات کو اپنی مریدی سے آزاد نہیں کیا بلکہ ان پڑھے لکھے جاہلوں کے گلے میں شخصیت پرستی کا طوق پہنا کر ناجانے انہیں ایسی کونسی گولی، اُنہیں کونسا لیمو دم کرکے  کھلایا جاتا ہے کہ آج یہ گھن چکر بنے گھوم رہے ہیں، سچائی دیکھتے ہوئے بھی یقین کرنے سے قاصر ہیں اور آج ان احمقوں کا حال زومبیس جیسا ہے جو محض آپ کے باڈی گارڈ اور آپ کے وفادار بنے پھررہے ہیں ........

ایسے میں یقین جانیں کتنوں کی چاہت یہ بھی ہے کہ آپ نام نہاد ملی و سیاسی قائدین کو کجرا، جھمکا، پائل و چوڑیوں والے تحفے بھیجیں تاکہ آپ اپنے عالیشان مکانوں میں سج سنور کر نازک حسیناؤں کی طرح ناز و نخرے کرتے پھریں اور آپ کو دیکھ کر قوم کا سالوں پرانا جھوٹا بھرم ٹوٹے جو عرصہ دراز سے آپ کو اپنا قائد مان کر آپ سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں.... 
کاش اُن کی وہ تمام جھوٹی امیدوں کے محل ڈھیر ہوجائیں اور وہ خود کو مرد مجاہد کی طرح عملی میدان میں پیش کریں کیونکہ آج لڑو یا مرو کا معاملہ ہے، خود کو فنا کرکے نئی نسلوں کو زندہ کرنا ہے اُن کا مستقبل سجانا ہے ورنہ وہ بھی ظالم کے ظلم و ستم، حق تلفی و ناانصافیوں  کے شکار بن کر غلامی کی زندگی جینے پہ مجبور ہوجائیں گے اور اللہ نہ کریں اُن کا مستقبل بھی گمراہی کے اندھیروں میں غرق ہوجائے گا  .........

Comments

Popular posts from this blog

یہ تو وقت ہے, آج تیرا تو کل ہمارا ہے

مودی بھکت یا مدنی بھکت .........

مفلسی پہ تماشائے الم !!!